خوش بو جیسے لوگ

 خوشبو جیسے لوگ

 زندگی کا سفر بہت اپنے ساتھ بہت سی مشکلا ت لئے ہوتا ہےبعض اوقات مشکلات کم ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات اس سفر میں خوشیاں اور سکوں بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ سب اللہ کی طرف سے امتحانات ہوتے ہیں۔ لیکن پل بھر کی خوشیاں بعض اوقات زیست کی ساری تھکاوٹ مٹا دیتی ہیں۔ کبھی کبھار یوں ہوتا ہے کہ دن کے آغاز سے ہی سب کچھ غلط ہونا شروع ہوتا ہے اور آخر کار دن کے اختتام پر یا کچھ پہلے بندہ اپنے آپ کو رب کے ہوالے کرتا اور سارے نتائج اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اب قسمت یاوری کرتی ہے اور کچھ ایسا اچھا ہوتا ہے کہ بندہ سب کلفتیں بھول کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اور سجدہ شکر بجا لاتا ہے۔ یو ں لگتا ہے جیسے بندہ سارا دن تپتے صحراوں میں سفر کرتے کرتے بالاخر نخلستان میں جا پہنچا ہے۔ 

ہم گاوں کے رہنے والے لوگ سادہ دل سادہ مزاج ، اعتبار کرنے والے ہوتے ہیں۔ جلدی سے مرعوب ہو جانے والے کبھی جلدی سے پریشان بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمارا گاوں ہیڈ سلیمانکی کے قریب ڈھاب سچا سنگھ ہے۔ یہ بارڈر ایریا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد آباو اجداد یہاں آکر آباد ہوگئے۔ کچھ زمین کلیم میں مل گئی اگرچہ ستلج کے خشک ہو جانے کے بعد یہ علاقہ لق و دق صحرا بن گیا مگر پھر بھی یہاں کے لوگوں کو اس ریت سے پیار تھا یہں آباد رہے۔ بارانی کاشت پہ گزر بسر ہونے لگا۔ بہت سا رقبہ سرکاری تحویل میں تھا ۔ پاک فوج کے ریٹائر ہونے والے افسران کو اس بارڈر ایریا میں رقبے الاٹ ہوتے ۔ اس صحرا میں زمین کو آباد کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ وہ افسران یہ رقبہ مقامی لوگوں کو بیچ دیتے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ بیس سال قبل سترہ ایکڑ رقبہ ابا جان نے بھی خرید لیا اور والدہ کے نام انتقال کروا لیا۔ چند روز قبل یہ خبر آئی کہ فوجی حضرات سے خرید کردہ رقبہ کیلئے ضروری ہے کہ اس کا این او سی خرید دار کے پاس ہو۔ جن کے پاس نہیں ہے وہ بنوا لیں۔ ورنہ قانونی چارہ جوئی کیلئے تیار رہیں۔ 

اب تو گاوں کے لوگ پریشان ہوگئے کہ اب کیا کیا جائے۔ پٹواری حضرات کی لاٹری نکل آئی۔ انہوں نے ایسے تمام متاثرہ لوگوں سے دل کھول کر مال اکٹھا کیا۔ اور سب کو لاہور طلب کرلیا۔ جمعرات کو صبح آٹھ بجے فرید کورٹ ہاوس میں سب نے پہنچنا تھا۔ والدہ کے نام زمین تھی اور زمین مالک کا پہنچنا لازمی تھا۔ وقت سے پہلے پہنچنے کیلئے رات بارے بجے والی بس کی ٹکتیں ایڈوانس بکنگ کروالیں۔ جب مقررہ وقت پر بس سٹاپ پہنچے تو ابھی بس نہیں ائی تھی۔ انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ ہم تو شائد انتظار میں کھڑے ہی رہ جاتے وہ تو بھلا ہو ہمارے دوست راو عرفان صاحب کا جنھوں نے کہا پوچھ لیں بس آبھی رہی ہے کہ نہیں۔ وہ اپنے بچوں کو بس سٹاپ پر چھوڑنے کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ پتا کرنے پر یہ عقدہ کھلا کہ بس راستے میں خراب ہو گئ ہے اب ڈیڑھ بجے دوسری بس آئے گی۔ ٹکٹس کینسل کروا کر پونے چار روانہ ہونے والی بس کی ٹکٹیں خریدیں۔ اور گھر واپس آکر پونےچار کا انتظار کرنے لگے۔ بس نے ہمیں نو بجے لاہور پہنچادیا۔ فون کر کے پٹواری صاحب سے پوچھا تو وہ ابھی گھنٹا لیٹ تھے۔ 

والدہ ضعیف بھی ہیں اور ان کی نظر بھی کمزور ہے۔ اب گھنٹا انتظار بہت مشکل کام دکھائی دیا۔ خیر اللہ اللہ کر کے ویٹینگ روم میں بیٹھ کر وقت گزارا۔ مشکل سے رکشا لیا اور فرید کورٹ ہاوس کی راہ لی۔ چوبرجی پر رکشا خراب ہو گیا۔ پھر والدہ کوبمشکل ایک رکشہ سے اتارا اور دوسرے میں سوار کیا۔ اس رکشہ والے نے ہمیں ریوینیو بورڈ آفس کے گیٹ پر اتارا۔ جب اندر گئے تو پتا چلا کہ ہمارا مطلوبہ دفتر جین مندر کے پاس ہے۔ ایک دوسرا رکشہ لیا اور مطلوبہ دفتر پہنچے۔ ہمارے پٹواری صاحب کو صرف پیسے لینے کا پتہ تھا مطلوبہ پروسیجر سے وہ بے خبر ہی تھے۔ گرمی کی ازیت اپنی جگہ اور انتظار اپنی جگہ۔ 
تین گھنٹے کے انتظار کے بعد پتہ چلا کہ اکیاون ہزار فیس بنک ڈرافٹ کے ذریعہ جمع ہو گی۔ ایک درخواست اور ایک اشٹامپ پیپر پر بیان حلفی ہو گا۔ اسی اثنا میں اویس کا فون آیا اور وہ گاڑی لے کر پہنچ گیا۔ میرے لئے تو اویس باد نسیم کا جھونکا ثابت ہوا۔ والدہ کو گاری میں بٹھا یا۔ تو مجھےسکون آیا کہ گاڑی کے ائر کندیشنر ٘میں والدہ کچھ سکون میں ہونگی۔ اویس کے آنے سے مجھے حوصلہ ہوا ۔ تصاویر بنوانے کے لئے زیادہ مسئلہ نا بنا۔ پھر بنک میں پیسے جمع کروائے۔ درخواست اور بیان حلفی لکھوانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ والدہ کے دستخط کروا کر میں نے سمجھا کہ کام مکمل ہوا۔


 

اویس نے انتہائی پرتکلف کھانے کا بندوبست کیا ۔ اللہ اسے جزائے خیر دے۔ کھانے کے بعد ہمیں اویس نیازی اڈے پر چھوڑنے جا رہا تھا جونہی ہم چوک یتیم خانہ پہنچے فون آیا کی اصلی شناختی کارڈ کی ضرورت ہے۔ واپس ہوئے اصلی شناختی کارڈ دیا۔ اور دوبارہ نیازی اڈے کی طرف عازم سفر ہوئے۔ اویس نے ہمیں ہمیں اڈے پر اتارا۔ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور ٹکت لئے اور گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ اور پتا چلا کہ زمین خریدنے والے کو بنفس نفیس طلب کیا جا رہا ہے۔ کہ ہمارے سامنے انگوٹھے کے نشان ثبت کرے۔ پھر نیازی اڈے سے رکشہ لیا۔ واپس پہنچے افسر صاحب جو ایک کلرک تھے۔ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر متعلقہ کاغظ پر انگوٹھا کا نشان ثبت کیا اور پھر ہمیں واپسی کی اجازت اس شرط پر پلی کہ ڈی پی او کے دفتر سے کیریکٹر سرتیفیکیت جمع کرو دیا جائے۔ 

باہر ایک ٹھیلے والے سے کچھ پھل خریدے ۔ پھلوں کا بل ۳۵۰ روپے بنا۔ میرے پاس صرف ہزارہزار والے چار نوٹ باقی تھے۔ میں نے ایک نوٹ پکڑایا۔ اس نے مجھے صرف ایک سو پچاس واپس کئے۔ ٘میں نے حساب بتایا کہ جناب چھ سو پچاس واپس کرو۔پھل والے نے کہا اپ نے مجھے پانچ سو کا نوٹ دیا ہے۔ جب رکشے والے نے میری تصدیق کی تو اس نے مجھے پانچ سو واپس کئے۔ یو لگ رہا تھا کائنات کی ہر چیز بس مجھے زچ کرنےکےدرپے ہے۔ 

اڈے پر واپس پہنچ کر ٹکٹ لئے بس میں سیٹ پر بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اویس کیلئے دل سے دعائیں نکلیں۔ ایسے لوگ تپتی دپہر میں باد نسیم کے جھونکوں جیسے ہوتے ہیں۔ اللہ پاک انہیں اجر عظیم عطا کرے۔

Comments