سیرت مبارکہ
آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) غار حرا میں تھے کہ ایک وجود نمودار ہوا۔ اس سے گبھراہٹ نہیں ہوئی بلکہ دل کو سکون ہوا۔ جیسے سوکھے ہونٹوں کو ٹھنڈا پانی مل گیا۔
اس نے فرمائش کی اقرا پڑھو۔
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ آپ نے عذر پیش کر دیا۔ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ اس وجود نے دوبارہ یہی کہا ۔ اقرا پڑھو۔ اس مرتبہ بھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا وہی عذر تھا۔ اس وجود نے تیسری مرتبہ یہی کہا۔ اس مرتبہ جواب میں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایاکیا پڑھوں۔ اس وجود نے یہ آیتیں پڑھوائیں۔
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
ترجمہ
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ۔بنایا انسان کو لہو کی پھٹکی (جمے ہوئے خون ) سے۔ پڑھ اور تیرا رب پڑا کریم ہے۔ جس نے علم سکھایاقلم سے۔ سکھایا آدمی کو جو نہ جانتا تھا۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ آیتیں پڑھیں۔ آیتیں ذھن نشین ہو گئیں۔ مگر ساتھ ساتھ زمہ داری کا احساس بھی ہوا۔ ایک طرف اپنی عاجزی کا غیر معمولی احساس تھا۔ آپ کی خصوصیت یہ تھی کہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ ہیچ درہیچ سمجھتے تھے۔ دوسری طرف اتنی بڑی زمہ داری اور ایسی ذمہ داری جس کا کوئی تجربہ اب تک نہیں تھا۔ یعنی بھٹکی ہوئی مخلوق کو پڑھنے پڑھانے ، تعلیم دینے اور سدھانے کی ذمہ داری۔ اور ایسی صورت سے جو بالکل اجنبی صورت تھی جس کا کبھی وہم و گمان بھی نہیں آیا تھا نہ کسی سے ایسی باتیں سنیں تھیں۔ اس طرح کے خیالات اور اور غیر معمولی احساس کااثر یہ ہواکہ دل کانپنےلگا۔ آپ مکان پر پہنچے تو لرزہ جیسی کیفیت تھی۔ آ پ نے رفیقہ حیات (حضرت خدیجہ ) سے کہا
میرے اوپر کپڑا ڈال دو۔
انسان کا دوسرا نام عبد (بندہ)چونکہ انسان اپنے خالق کا مخلوق اور بندہ ہے اور یہی اس کی حقیقت ہے۔ گتو جو نام اس کی فطرت کے مطابق ہے وہ عبد ہے۔ اور فطرت عبد کا تقاضہ یہ ہے اس کے جذبات اور اس کا ہر ایک عمل اور کردار عبدیت اور نیازمندی کے سانچہ میں ڈھلا ہوا ہو۔ اس بناء پر عبدیت اور نیاز مندی کو عبد(بندہ) کا سب سے اعلی کمال سمجھا جاتا ہے۔
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٝ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّـٰهِ ۚ
اگر ہم اس قران کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تو دیکھتا کہ خدا کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا۔
حضرت خدیجہ نے بلائیں لیں ، پوچھا کیا بات ہے؟ طبیعت کو سکون ہوا تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے پورا قصہ سنایا۔ اور یہ بھی فرمایا مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ (ایسی بڑی ذمہ داری کو کیسے اٹھا سکوں گا) حضرت خدیجہ سمجھدار خاتون تھیں۔ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو جسطرح پندرہ سال سے دیکھ رہی تھیں ان کو یقین تھا کہ اس غیر معمولی شخص کے لئے کوئی غیر معمولی صورت نمودار ہوگی۔ جس کی شان نرالی ہوگی۔
حضرت خدیجہ نے پورا واقعہ سنا ۔ پھر وہ آیتیں سنیں جن میں اس طرف اشارہ تھا کہ خداقادر جو خون کے لوتھڑے سے جیتا جاگتا انسان بناتا ہے۔قلم کے ذریعہ لکھنا پڑھنا سکھاتا ہے۔ انسان کو وہ باتیں بتاتا ہے جن کو وہ خود اپنے ذھن سے نہیں معلوم کرسکتاتھا، وہ خداء قادر کسی استاد یا قلم کی مدد کے بغیر محض اپنی قدرت سے علم کے دروازے آپ پر کھول دیگا۔
وہ اس واقعہ سے متعلق کوئی فیصلہ تو نہ کر سکیں۔ البتہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ اسلم) نے جو خطرہ ظاہر کیا تھا کہ ان ذمہ داریوں کے بوجھ سے میری جان جاتی رہے گی۔ حضرت خدیجہ نے اس کا اطمینان دلایا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ حضرت خدیجہ نے آپ کی زندگی کا مرقع پیش کر کے بہت لطیف پیرایہ میں اطمینان دلایا کہ آپ یہ بار اٹھا سکیں گے۔ کیوں کہ اب تک کی زندگی میں جو بوجھ اٹھاتے رہے ہیں وہ کم نہیں ہیں۔وہ بھی غیر معمولی ہیں پس اگر کوئی اس سے بڑی ذمہ داری آپ پر پڑے گی تو آپ اس کو بھی اٹھاسکیں گے۔حضرت خدیجہ نے اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا۔
كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری شریف صفحہ۷۴۰)۔
ترجمہ
خدا شاہد ہے۔ ایسا ہرگز نہِں ہو سکتا۔ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالی آپ کو ناکام کردے۔ آپ کی مدد مہ کرے آپ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ ہارے، تھکے، درماندہ مسافروں کے لئے سواری کا انتظام کرتے ہِن ان کو منزل تک پہنچاتے ہیں۔ آپ ایسے احسانات کرتےہیں اور ایسی خدمات انجام دیتے ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی، جو دوسری جگہ قطعا نایاب ہیں۔ باہر کے مسافر جو بے ٹھکانا ہوتے ہیں آپ ان کو اپنا مہمان بناتے ہیں۔ برپا ہونے والے ہنگاموں اور ناگہانی حوادث میں آپ حق کی حمایت کرتے ہیں۔
حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہ)نے اسطرح تسلی دی۔ لیکن ان کی رائے اور ان کا اپنا اعتقاد تھاکہ جو اس طرح صاحب خیر ہو، خدا کیطرف سے اسکی مدد ہوگی۔ اس کو ذلیل و رسوا اور ناکام نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس طرح کی باتوں سے وہ بھی واقف نہیں تھیں۔ ان کو ایک شخص کا خیال آیا۔یہ حضرت خدیجہ کے ہمجد تھے۔ رشتہ کے بھائی ہوتے تھے۔ عیسائی مذہب اختیار کئے ہوئے تھے۔ عالم فاضل تھے۔ نبوت اور الہام کی باتیں جانتے تھے۔ عبرانی زبان پہ ان کو عبور تھا۔ عبرانی کی اصل انجیل کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ عربی میں اس کا ترجمہ بھی کیا کرتے تھے۔ اب بہت بوڑھےتھے۔ بصارت سے بھی معذور ہو چکے تھے۔ مگر لوگ ان کی قدر کرتے تھے۔ ان کا نام ورقہ تھا۔ ولدیت نوفل۔ حضرت خدیجہ حضرت محمد(صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کو ساتھ لے کر ان کے یہاں پہنچیں اور کہا آپ کے برادر زادے (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو عجیب صورت پیش آئی ہے۔ یہ خود ہی بیان کریں گے۔ آپ غور سے سنئے اور رائے دیجئے۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پورا واقعہ بیان کیا۔
ورقہ نے جیسے ہی سنا برجستہ جواب دیا۔
یہ تو وہی ناموس (فرشتہ)ہے جس کو اللہ تعالی نےحضرت عیسی علیہ السلام پر نازل فرمایاتھا۔ ورقہ نے کہا میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ کاش میں جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ ہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔
سیرت مبارکہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن اور تاریخ کے آئینہ میں۔
حضرت مولانا سید محمد میاں
Comments
Post a Comment